نیویارک،6فروری(ایس اونیوز/آئی این ایس انڈیا)ایک سال پیشتر سوشل میڈیا اور اخبارات و جرائد میں بھوک سے نڈھال اورقریب المرگ ایک سیاہ فام افریقی بچے کی تصویر کو اس وقت غیرمعمولی پذیرائی ملی تھی جب بے سہارا بچے کو ڈنمارک کی ایک خاتون امدادی کارکن کو پانی پلاتے دیکھا گیا گیا تھا۔ ذرائع ابلاغ شاید اس کہانی کو بھول گئے مگر آج یہ قصہ ایک نئی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ وہ یہ کہ اس ڈینش امدادی کارکن نے بچے کو موت کے منہ میں جانے سے بچاتے ہوئے اس کی زندگی بدل ڈالی ہے۔ سڑکوں اور گلیوں میں بھوکا اور ننگا پھرنے والے اس ننھے منھے بچے کے بارے میں اس کے والدین کا خیال تھا کہ وہ جادو کا شکار ہے۔ انہوں نے بچے کی کفالت کی ذمہ داری بھی چھوڑ دی تھی۔
ڈنمارک سے تعلق رکھنے والی خاتون امدادی کارکن ’آنیا رنگرنگ لفین‘ نائیجیرین بچے کے لیے مسیحا بن کر وہاں پہنچیں اور انہوں نے اس بچے کو سڑکوں پر بھوک سے نڈھال دیکھا تو اس نے اسے کھانا پانی دیا اور اپنی کفالت میں لینے کے ساتھ اس کے علاج سمیت ہرطرح کی ضرورت پوری کرنے کی مہم شروع کی۔ آنیا کی انسانی ہمدردی کے جذبے کو اس وقت اور بھی سہارا ملا جب بھوک سے نڈھال بچے کے لیے اسے لوگوں نے ایک ملین ڈالر سے زیادہ رقم کے عطیات دے ڈالے۔ڈینش امدادی کارکن نے بچے کو اسپتال منتقل کیا جہاں اس کے معدے اور پیشاب کی شریانوں کا علاج کرایا گیا۔ خوراک اور توجہ نہ ملنے کے نتیجے میں بچہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا تھا اور اسے مسلسل خون کی ضرورت تھی۔ چنانچہ اسے روزانہ کی بنیاد پر خون دینے کا عمل شروع کیا گیا۔ آج وہی بچہ خوش وخرم، صحت مند اور اسکول جانے کو تیار ہے۔
آنیا نے افریقی بچوں کی تعلیم اور بہبود کے لیے ایک امدادی تنظیم قائم کررکھی ہے۔ اس نے حال ہی میں نائیجیریا کے اس بچیکی تصاویر اپنے فیس بک صفحے پر پوسٹ کیں۔ اس نے لکھا کہ میں نے 30 جنوری 2016ء کو افریقا کے دورے کے دوران یہ بچہ سڑکوں پر دیکھا۔ ان کے شوہر ڈیوڈ ایمانویل اور نائجیریا کی ٹیم ان کے ہمراہ تھی۔ ایک سال قبل بچے کی تصویر اور آج کی تصویر میں واضح فرق دیکھا جاسکتا ہے۔ آج بچہ اسکول جانے کے لیے تیار ہے۔ آنیا نے بچے کا نام ’امید نو‘ رکھا ہے، آنیا کا کہنا ہے کہ اس کی زیرکفالت بچہ اب اسکول جائے گا۔ بچے کو اسکول کے یونیفارم میں اسکول بیگ اٹھائے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
خیال رہے کہ ڈینش خاتون کے زیرکفالت بچے کا تعلق نائیجیریا کی جنوبی ریاست اویو سے ہے۔ بچے کے والدین نے 2015ء میں اس سے لاتعلقی اختیار کرلی تھی۔ جس کے بعد وہ سڑکوں پر مارا مارا پھرتا تھا۔
آنیا نے تین سال قبل افریقی ملکوں کا طویل دورہ کیا۔ اس دورے میں انہوں نے افریقی ملکوں میں بھوک اور ننگ کے بے شمار مظاہر دیکھے مگر سڑکوں پر آوارہ پھرنے والے ایک کم سن بچے نے اسے ہلا کر رکھ دیا ’ھوپ‘ سڑکوں پر گھومتا پھرتا۔ آنیا نے اپنے شوہر ڈیوڈ امانویل کے ہمراہ اسے دیکھا تو بچے کو ایک امدادی مرکز لے گئے جہاں اس کا طبی معائنہ کرنے کے ساتھ ساتھ اسے خوراک دی جانے لگی۔دونوں میاں بیوی نے گذشتہ جنوری میں یتیم بچوں کی کفالت کے لیے ایک مرکز بھی قائم کیا ہے۔گذشتہ برس آنیا نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ کے صفحے پر لکھا تھا کہ ’نائیجیریا کے دورے کے دوران میں نے بہت کچھ دیکھا۔ میں نے اپنے مشن کو کامیاب بنانے کے لیے بھرپور کام کیا اور اپنے تجربات کو کئی مہمات میں استعمال کیا‘۔انہوں نے کہا کہ بہت سے بچوں کی جسمانی بیماریوں کے باعث ان کے والدین انہیں جادو کا شکار قرار دیتے ہیں۔ ان بچوں کو گھر سے نکال دیا جاتا ہے یا انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے بہت سے بچوں کو خوف زدہ دیکھا اور کئی بچے تشدد سے مرچکے تھے۔